سردی رخصت ہو گئی ہے اور گرمی کی آمد آمد ہے۔ بھاری بھرکم بستروں میں سے لحاف اور توشک اٹھائے جا چکے ہیں۔ اس ماہ کے دن بہ نسبت راتوں کے کسی قدر بڑے ہو جاتے ہیں۔ موسم کے مزاج میں حرارت بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے انسانی اجسام میں قوت زیادہ ہو جاتی ہے۔ خون کی حدت میں اضافہ اور تیزی ہو جاتی ہے۔ موسمی تبدیلی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے اس لئے بلغمی امراض مثلاً کھانسی، وجع المفاصل، ذات الجنب وغیرہ میں کمی آجاتی ہے لیکن موسم گرما کے اوائلی امراض مثلاً وبائی نزلہ، زکام اور خسرہ وغیرہ کی شکایات اکثر دیکھنے میں آتی ہیں۔ بحیثیت مجموعی اپریل مہینہ خوشگوار موسم کا حامل ہوتا ہے۔ درختوں میں نئی نئی کونپلیں اور شگوفے پھوٹتے ہیں جو انواع واقسام کے ثمرات کی افزائش کا باعث بنتے ہیں۔ رنگ برنگے پھول کھل کر اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ جن کی خوبصورتی نہ صرف بصارت اور دل ودماغ کو تقویت دیتی ہے بلکہ طرح طرح کی خوشبوئیں پھیل کر فضا کو معطر کرتی ہیں جس کے باعث ارواح انسانی بے حد مسرت حاصل کرتی ہیں۔ مرجھائی طبیعتوں میں فرحت وانبساط کی فراوانی ہو جاتی ہے۔ اس مہینہ میں اچھی اور خوبصورت نظاروں کی حامل جگہوں کی سیر کرنی چاہئے۔ سال بھر کی محنت ومشقت کے بعد چند دن جسم اور روح کو آرام دیا جائے تو تھکاوٹ اور بے دلی کم ہو کر انسان تازہ دم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ اقوام کے افراد ان دنوں مختلف جھیلوں، پہاڑوں اور جنگلوں کے پرفضا مقامات پر چند یوم ضرور بسر کرتے ہیں اور یہی چیز ان کی تندرستی میں مددگار ومعاون ثابت ہوتی ہے۔ ویسے تو رہائشی جگہوں کو صاف ستھرا رکھنا انسان کا لازمی فرض ہے مگر خاص طور پر ان ایام میں ذرا زیادہ ہی توجہ دی جائے تو اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو ملیریا جیسے موذی مرض سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے کیونکہ گندی جگہوں پر مچھر کی افرائش ہوتی ہے۔ اسی طرح مکھیاں بھی جو کہ ہیضے جیسی مہلک وبا کا باعث ہوتی ہیں گندی جگہوں پر پرورش پاتی ہیں۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ اپنے گھر میں سفیدی کرائیں، نالیوں میں صفائی کے بعد فینائل چھڑکیں، صحن اور کمروں کے فرش کو دھوئیں اور ہمیشہ صاف ستھرا رکھیں۔ کوڑے کرکٹ کو ڈھکنے والے ٹین میں جمع کریں ۔وقتاً فوقتاً اگربتی یا دھونی جلائیں تاکہ کمروں کی گندی ہوا صاف رہ سکے۔ سوتے وقت مچھر دانی کا استعمال نہایت مفید ہے۔ اس مہینہ میں بھنی ہوئی چیزیں، شکار کے گوشت اور سرکے میں تیار کی گئی چیزیں جیسے پیاز یا سکنجبین وغیرہ استعمال کرنی چاہئیں۔ روزانہ غسل کریں اور بدن پر روغن سرسوں کی مالش کریں۔ لباس میں خوشبو لگانا اور خوشبو دار پھولوں کا سونگھنا مفید ہے۔ اگرچہ اس موسم میں تیز مصالحہ والی بھنی ہوئی غذائوں کو طبیعت چاہتی ہے مگر زیادہ تیز مصالحہ اچھی چیز نہیں ہے کیوںکہ یہ معدے کے فعل کو باطل کرتا ہے اور نہ ہی حد سے زیادہ بھنا ہوا گوشت مفید ہے کیونکہ اس کے تمام حیاتین جل کر تباہ ہو جاتے ہیں۔ اس لئے بھنے ہوئے سے مراد معتدل (درمیانہ درجہ) بھوننا ہے۔ اس کے علاوہ جو لوگ کڑاہی تکے کے گوشت کے بے حد شوقین ہوتے ہیں اور روزانہ استعمال کرتے ہیں،ان کی بھوک مر جاتی ہے۔ سوءہضم کی شکایت ہو جاتی ہے ۔ جگر صالح خون پیدا نہیں کر تا۔ آنتوں کا فعل خراب ہو جاتا ہے اور پھر پیچش، دست اور آخر میں سنگرہنی جیسی موذی اور جان لیوا بیماری کے شکار ہوتے ہیں۔ لہٰذا تھوڑی دیر کے مزہ کیلئے اپنی جان کو دائو پر مت لگایئے۔ ہاں کبھی کبھار اور بالکل کم مقدار میں کھانے سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ پودینہ اور پیاز کی چٹنی نہ صرف کھانے ہی کو لذیذ بناتی ہے بلکہ ہضم کرنے میں بھی ممد ومعاون ثابت ہوتی ہے۔ رات کو کھانا کم کھائیں اور اس کے بعد کچھ دیر چہل قدمی کریں۔ کھانے کے فوری بعد سونے کے لئے نہ جائیں۔ موسم بہار میں موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی انسانی جسم میں بھی تبدیلی رونما ہونا شروع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ موسم سرما اختتام پذیر ہونے کے بعد موسم بہار پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ یہ موسم ہمارے ہاں مارچ اور اپریل میں ہوتا ہے ۔ہر سو پھولوں کی مہک ہے۔ باغوں میں چہل پہل نظر آتی ہے اور ایک عجب خوشگواری کا احساس ہوتا ہے مگر اس کے باوجود بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے موسم تبدیل ہونے کے ایام اور خصوصاً موسم بہار اذیت ناک ہوتا ہے۔ الرجک اور دمے کے مریض ایسے ہی لوگوں میں شامل ہیں۔دنیا میں اس وقت ایک سے ڈیڑھ کروڑ افراد دمے جیسے موذی مرض کا شکار ہیں اور ان کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے، مگر جن لوگوں کو الرجک دمہ (Allergic Asthma) ہے ان کے لئے یہ خوشگوار موسم نا خوشگواری کا پیغام لاتا ہے، کیونکہ بہار کے ایام ان کے لئے وبال جان بن جاتے ہیں۔ سانس لیتے وقت شدید مشکل پیش آتی ہے، دم گھٹتا ہے اور سینے میں جکڑن محسوس ہوتی ہے۔ کبھی کھانسی ہوتی ہے اور زور لگا کر سانس خارج کرنا پڑتا ہے۔ جوں جوں موسم بہار ختم ہوتا اور گرمی اپنا اثر دکھانا شروع کرتی ہے ایسے لوگوں کی طبیعت بحال ہوتی جاتی ہے۔ الرجک دمہ الرجک دمہ ہر عمرکے فرد کو ہو سکتا ہے۔ الرجک دمہ کسی خاص چیز کی الرجی سے ہوتا ہے جس چیز سے الرجی ہو کر دمہ ہوتا ہے اسے حساسیہ یا الرجن (Allergen) کہتے ہیں مثلاً گائے کا گوشت، دودھ، چاول وغیرہ، کیونکہ بعض افراد کو ان کے باعث الرجک دمہ ہو جاتا ہے۔ دودھ پیتے بچے کو گھر کے اندر کی اشیاءسے الرجی ہو جاتی ہے مثلاً بستر، دریوں، قالین، صوفوں کے گرد وغبار، پرندوں کے پر وغیرہ۔ اسی طرح سرد ہوا، خشک موسم، ماحولیاتی اور فضائی آلودگی ، فضا میں دھوئیں اور گیسوں اور مرطوب آب وہوا سے بھی حساس افراد کو الرجک دمہ ہو جاتا ہے۔ موسم بہار میں الرجک دمہ موسم بہار میں پھولوں، گھاس اور پودوں کے ریزے فضا میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح یہ باریک ذرے سانس کے ذریعے سے پھیپھڑوں میں پہنچ کر سوزش اور ورم پیدا کرتے ہیں جس سے سانس کی نالیاں تنگ ہونے سے سانس گزرنے میں دقت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ موسم کا سرد خشک ہونا بھی اس کا سبب بن جاتا ہے۔ اس طرح سے بیرونی مادوں سے ہونے والے دمہ کو الرجک دمہ کہتے ہیں جو یہ موسم ختم ہونے اور فضا کے صاف ہونے سے ٹھیک ہو جاتا ہے۔ احتیاطی تدابیر صبح نماز فجر کے بعد کھلے میدان میں آدھے گھنٹے تک لمبے لمبے سانس لیجئے۔ گھر کی صفائی پر خصوصی توجہ دیجئے۔ گرد وغبار سے محفوظ رہئے۔ کھٹی تیل والی اشیاءسے احتیاط کیجئے۔ مقوی غذائوں کا استعمال زیادہ کیجئے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں